کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں
Appearance
کیا جانو جو اثر ہے دم شعلہ تاب میں
یہ وہ ہے برق آگ لگا دے نقاب میں
حال اس نگہ کا اس کے سراپے میں کیا کہوں
مور ضعیف پھنس گئی جا شہد ناب میں
ذکر وفا وہ سنتے ہی مجلس سے اٹھ گئے
کچھ گفتگو ہی ٹھیک نہ تھی ایسے باب میں
کیا پوچھتے ہو چارۂ ہو از خویش رفتگاں
سو جا سے چاک جامہ ہے سوزن خلاب میں
آواز صور تیرے شہیدوں کو روز حشر
لگتی تھی اک بھنک سی تو کانوں کو خواب میں
جو دیکھتے ہی اس سے یہ گزرا کبھو نہیں
یعقوب کے خیال و زلیخا کے خواب میں
ہر ہر روئیں سے خرقہ کے میرے ہے خونچکاں
غوطے تو سو دیے اسے زمزم کے آب میں
اس چشم اشکبار کے کیونکر ہو سامنے
رونے کا مادہ ہی نہیں ہے سحاب میں
قسمت تو دیکھ کھولی گرہ کچھ تو رہ گئے
ناخن ہمارے ٹوٹ کے بند نقاب میں
ہر وقت آرزوئے عذاب جحیم ہے
ہاتھوں سے ہجر کے ہوں میں کیا کیا عذاب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |