کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
Appearance
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے
ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے
حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے
کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے
کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے
ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے
ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے
دلّی کے رہنے والو اسدؔ کو ستاؤ مت
بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |