کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
by جگر مراد آبادی

کیا تعجب کہ مری روح رواں تک پہنچے
پہلے کوئی مرے نغموں کی زباں تک پہنچے

جب ہر اک شورش غم ضبط فغاں تک پہنچے
پھر خدا جانے یہ ہنگامہ کہاں تک پہنچے

آنکھ تک دل سے نہ آئے نہ زباں تک پہنچے
بات جس کی ہے اسی آفت جاں تک پہنچے

تو جہاں پر تھا بہت پہلے وہیں آج بھی ہے
دیکھ رندان خوش انفاس کہاں تک پہنچے

جو زمانے کو برا کہتے ہیں خود ہیں وہ برے
کاش یہ بات ترے گوش گراں تک پہنچے

بڑھ کے رندوں نے قدم حضرت واعظ کے لیے
گرتے پڑتے جو در پیر مغاں تک پہنچے

تو مرے حال پریشاں پہ بہت طنز نہ کر
اپنے گیسو بھی ذرا دیکھ کہاں تک پہنچے

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

عشق کی چوٹ دکھانے میں کہیں آتی ہے
کچھ اشارے تھے کہ جو لفظ و بیاں تک پہنچے

جلوے بیتاب تھے جو پردۂ فطرت میں جگرؔ
خود تڑپ کر مری چشم نگراں تک پہنچے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse