کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
by آغا اکبرآبادی

کیا بنائے صانع قدرت نے پیارے ہاتھ پاؤں
نور کے سانچے میں ڈھالے ہیں تمہارے ہاتھ پاؤں

ضعف پیری چھا گیا زور جوانی چل بسا
اب چلیں بتلائیے کس کے سہارے ہاتھ پاؤں

مچھلیاں بازو پہ ابھریں ساق پا شمعیں بنیں
خوب صاحب نے نکالے اب تو بارے ہاتھ پاؤں

فوق ہیرے سے نہیں ہے میری جاں یاقوت کو
کیوں رنگے ہیں آپ نے مہندی سے سارے ہاتھ پاؤں

مانی و بہزاد نے ملک عدم کی راہ لی
وہ کمر مطلق نہ پائی لاکھ مارے ہاتھ پاؤں

ہم نہ کہتے تھے کہ ہر دم شوخیاں اچھی نہیں
آخرش مہندی نے باندھے لو تمہارے ہاتھ پاؤں

ہاتھا پائی میں بھی ہم چوکے نہ اپنے کام سے
وصل کی شب یار نے کیا کیا نہ مارے ہاتھ پاؤں

ہے ضعیفی میں بھی ہم کو نوجوانی کا خیال
دل نہیں ہارا ہے اب تک گو کہ ہارے ہاتھ پاؤں

غیر کی دھمکی سے ہم ڈر جائیں یہ ممکن نہیں
ایسے بودے بھی نہیں ہیں کچھ ہمارے ہاتھ پاؤں

معدن یاقوت کو دریا بنایا آپ نے
مہندی مل کر دھوئے جب دریا کنارے ہاتھ پاؤں

اس بڑھاپے میں بھی آغاؔ سو جواں میں ایک ہے
گو ضعیفی آ گئی پر ہیں کرارے ہاتھ پاؤں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse