کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں
by سراج اورنگ آبادی

کیا بلا کا ہے نشہ عشق کے پیمانے میں
کوئی ہوشیار نہیں عقل کے کاشانے میں

ڈوب جاتا ہے مرا جی جو کہوں قصۂ درد
نیند آتی ہے مجھی کوں مرے افسانے میں

دل مرا زلف کی زنجیر سیں ہے بازی میں
اپنے اس کام کا کیا ہوش ہے دیوانے میں

کیا مزے کا ہے ترے سیب زنخداں کا خال
لذت میوۂ فردوس ہے اس دانے میں

اس ادب گاہ کوں توں مسجد جامع مت بوجھ
شیخ بے باک نہ جا گوشۂ مئے خانے میں

آنکھ اٹھاتے ہی مرے ہاتھ سیں مجھ کوں لے گئے
خوب استاد ہو تم جان کے لے جانے میں

خوش ہوں میں صحبت مجنوں سیں نہ لیو عقل کا نام
آشنائی کی کہاں باس ہے بیگانے میں

شعلہ ہے آب حیات دل مشتاق سراجؔ
اس سمندر سیں بڑا فرق ہے پروانے میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse