کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
by جوشش عظیم آبادی

کیا بدگمانیاں ہیں مری جان لیجئے
یہ دل تو ہے وہی اسے پہچان لیجئے

ہم سے تو یہ کبھی نہیں ہونے کا ناصحو
سنئے تمہاری بات کو اور مان لیجئے

نے عیش کی طلب ہے نہ عشرت کی آرزو
اے چرخ کس لیے ترا احسان لیجئے

گر حکم ہو تو کاٹ کے سر آگے لا رکھوں
لینے کا اس کے رکھئے نہ ارمان لیجئے

آیا ہوں تنگ شہر میں وحشت کے ہاتھ سے
جی چاہتا ہے راہ بیابان لیجئے

گر امتحان عشق ہو منظور تو ابھی
کرتا ہوں میں نیاز دل و جان لیجئے

منہ دیکھ نو خطوں کا یہی آئے ہے خیال
دے کر کے نقد جان یہ قرآن لیجئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse