کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے
by ناطق لکھنوی

کیا بتاؤں دل کہاں ہے اور کس جا درد ہے
میں سراپا دل ہوں دل میرا سراپا درد ہے

یہ سمجھ لیں پہلے آپ اے حضرت عیسیٰ ذرا
کس کے دل میں درد ہے یہ اور کس کا درد ہے

جو چلا دنیا سے وہ رکھے ہوئے سینے پہ ہاتھ
میں سمجھتا ہوں کہ سب کے دل میں تیرا درد ہے

میرے چپ رہنے سے تو غافل ہے او ظاہر پرست
ظرف بھی اتنا ہی میں رکھتا ہوں جتنا درد ہے

ہر تڑپ پر قالب مردہ میں آ جاتی ہے روح
مجھ مریض ناتواں کی جان گویا درد ہے

بچ گئے تو انتہائے عشق میں لطف آئے گا
اور ابھی تو ابتدا میں انتہا کا درد ہے

اپنا اپنا حال کہہ لینے دو ناطقؔ سب کو تم
جانتا ہے وہ کہ کس کے دل میں کتنا درد ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse