کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
by مصطفٰی خان شیفتہ

کیا اٹھ گیا ہے دیدۂ اغیار سے حجاب
ٹپکا پڑے ہے کیوں نگہ یار سے حجاب

لا و نَعَم نہیں جو تمنائے وصل پر
انکار سے حجاب ہے، اقرار سے حجاب

تقلیدِ شکل چاہئے سیرت میں بھی تجھے
کب تک رہے مجھے ترے اطوار سے حجاب

دشنام دیں جو بوسے میں ابرام ہم کریں
طبعِ غیور کو ہے پر اصرار سے حجاب

رندی میں بھی گئی نہ یہ مستوری و صلاح
آتا ہے مجھ کو محرمِ اسرار سے حجاب

وہ طعنہ زن ہے زندگیِ ہجر پر عبث
آتا ہے مجھ کو حسرتِ دیدار سے حجاب

جوشِ نگاہِ دیدۂ حیراں کو کیا کہوں
ظاہر ہے روئے آئینہ رخسار سے حجاب

روز و شبِ وصال مبارک ہو شیفتہ
جورِ فلک کو ہے ستمِ یار سے حجاب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse