کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
Appearance
کیا اس کی صفت میں گفتگو ہے
جیسا تھا وہی ہے جو تھا سو ہے
آنکھیں ہیں تو دیکھ لے کہوں کیا
حاضر ناظر ہے روبرو ہے
یک بین کی نظر میں ایک ہے گا
احوال کی نگہ میں گو کہ دو ہے
تو سیر کرے ہے جس چمن کی
ہر گل میں صبا اسی کی بو ہے
وہ تجھ میں ہے تو ہے اسی میں ہر دم
کیا اس کا سراغ و جستجو ہے
اے شیخ تو اس کی کچھ حقیقت
مت پوچھ یہ سر گو مگو ہے
اپنی اپنی سی سب کہیں ہیں
کب عقدہ یہ حل کسو سے ہو ہے
یہ مسئلہ لا جواب ہے گا
چپ رہنا یہاں ہماری خو ہے
چالیس برس ہوئے کہ حاتمؔ
مشاق قدیم و کہنہ گو ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |