کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
by نظیر اکبر آبادی

کیا ادا کیا ناز ہے کیا آن ہے
یاں پری کا حسن بھی حیران ہے

حور بھی دیکھے تو ہو جاوے فدا
آج اس عالم کا وہ انسان ہے

اس کے رنگ سبز کی ہے چیں میں دھوم
کیوں نہ ہو آخر کو ہندوستان ہے

جان و دل ہم نذر کو لائے ہیں آج
لیجئے یہ دل ہے اور یہ جان ہے

دل بھی ہے دل سے تصدق آپ پر
جان بھی جی جان سے قربان ہے

دل کہاں پہلو میں جو ہم دیں تمہیں
یہ تو گھر اک عمر سے ویران ہے

عقل و ہوش و صبر سب جاتے رہے
ہاں مگر اک آدھ موئی سی جان ہے

وہ بھی گر لینی ہوں تو لے جائیے
خیر یہ بھی آپ کا احسان ہے

آن کر مل تو نظیرؔ اپنے سے جان
اب وہ کوئی آن کا مہمان ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse