کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
by محمد ابراہیم ذوق

کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد

کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

کوئی گھڑی اگر وہ ملایم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد

اس لعل لب کے ہم نے لیے بوسے اس قدر
سب اڑ گئی مسی کی دھڑی دو گھڑی کے بعد

اللہ رے ضعف سینہ سے ہر آہ بے اثر
لب تک جو پہنچی بھی تو چڑھی دو گھڑی کے بعد

کل اس سے ہم نے ترک ملاقات کی تو کیا
پھر اس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد

تھے دو گھڑی سے شیخ جی شیخی بگھارتے
ساری وہ شیخی ان کی جھڑی دو گھڑی کے بعد

کہتا رہا کچھ اس سے عدو دو گھڑی تلک
غماز نے پھر اور جڑی دو گھڑی کے بعد

پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اس کی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد

تو دو گھڑی کا وعدہ نہ کر دیکھ جلد آ
آنے میں ہوگی دیر بڑی دو گھڑی کے بعد

گو دو گھڑی تک اس نے نہ دیکھا ادھر تو کیا
آخر ہمیں سے آنکھ لڑی دو گھڑی کے بعد

کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوقؔ کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse