کہیے گر ربط مدعی سے ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہیے گر ربط مدعی سے ہے
by نظام رامپوری

کہیے گر ربط مدعی سے ہے
کہتے ہیں دوستی تجھی سے ہے

دیکھیے آگے آگے کیا کچھ ہو
دل کی حرکت یہ کچھ ابھی سے ہے

اس کی الفت میں جیتے جی مرنا
فائدہ یہ بھی زندگی سے ہے

ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے

خوف سے تم سے کہہ نہیں سکتے
دل میں اک آرزو کبھی سے ہے

مجھ سے پوچھو ہو کس سے الفت ہے
تم سمجھتے نہیں کسی سے ہے

رنجش غیر سے نہیں مطلب
کام ہم کو تری خوشی سے ہے

اس قدر آپ ہم پہ ظلم کریں
اس کا انصاف آپ ہی سے ہے

رشک دشمن نہ سہہ سکے گا نظامؔ
یہ بھی ناچار اپنے جی سے ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse