کہیے کیا اور فیصلے کی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہیے کیا اور فیصلے کی بات
by قلق میرٹھی

کہیے کیا اور فیصلے کی بات
وصل ہے اک معاملے کی بات

اس کے کوچے میں لاکھ سر گرداں
ایک یوسف کے قافلے کی بات

گیسوئے حور اور زاہد بس
ذکر کاکل ہے سلسلے کی بات

غیر سے ہم کو رشک صل علیٰ
کہیے کچھ اپنے حوصلے کی بات

ایک عالم کو کر دیا پامال
یہ بھی ہے کوئی مشغلے کی بات

کیا بگڑنا انہیں نہیں آتا
صلح بھی ہے مجادلے کی بات

دیکھ کیا کہتے ہیں خدا سے ہم
اک ذرا ہے مقابلے کی بات

اس قدر اور قریب خاطر تو
عقل سے ہے یہ فاصلے کی بات

داور حشر سے بھی حال کہا
نہیں رکتی کہیں گلے کی بات

نہ چلے پاؤں اور نہ سر ہی چلے
بے سر و پا ہے آبلے کی بات

کوئی مضموں کبھی نہ پیش آیا
شعر میں کی ہے پھر صلے کی بات

ہم نشیں عرش ہل گیا شب ہجر
پوچھ مت جی کے زلزلے کی بات

اے قلق دل کو سوچ کر دینا
کچھ نہیں ٹھیک ولولے کی بات

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse