کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
by حفیظ جونپوری

کہیں مرنے والے کہا مانتے ہیں
وہی کر گزرتے ہیں جو ٹھانتے ہیں

کوئی کھیل ہے جان پر کھیل جانا
وہ یہ کہہ کے اکثر ہمیں تانتے ہیں

ملا یہ جواب آج رشک عدو پر
جو مانے ہمیں اس کو ہم مانتے ہیں

تڑپ کر ادھر ہو گیا کوئی ٹھنڈا
ادھر آپ دامن ہی گردانتے ہیں

کہیں کیا شب ہجر کٹتی ہے کیوں کر
جو دل پر گزرتی ہے ہم جانتے ہیں

مرے دل کی کچھ قدر ہوگی انہیں کو
جو کھوٹا کھرا خوب پہچانتے ہیں

یہ فقرے یہ چالیں یہ گھاتیں یہ باتیں
تجھے او دغاباز ہم جانتے ہیں

عدو سے بھی ہے صلح منظور اچھا
جو اب تک نہ مانی تھی اب مانتے ہیں

حفیظؔ اس کی جس پر ہوئی مہربانی
اسی کو زمانے میں سب مانتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse