کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے
by آرزو لکھنوی

کہیں سر پٹکتے دیوانے کہیں پر جھلستے پروانے
جو ہو بے شعور کیا جانے یہ ہیں زندگی کے افسانے

یہ نئی نئی ہر اک صورت یہ طلسمی آئینہ خانے
ہے غضب کی شعلہ سامانی کہ بھٹک رہے ہیں پروانے

سبھی اپنے اور بیگانے چلے آ رہے ہیں سمجھانے
مجھے کیا ہوا خدا جانے میں سڑی ہوں یا یہ دیوانے

کوئی آ رہا ہے سمجھانے مگر اس طرح کہ بے جانے
ہیں اسی کے غم میں دیوانے ابھی سن لے تو برا مانے

للک ایک سی نہ اے کوئل نہ ترا سا دل ہے میرا دل
تری کوک کو میں کیا سمجھوں مری ہوک کو تو کیا جانے

تری بے رخی نے اے ساقی ہوس طلب بڑھا دی ہے
ہوا چور ایک پیمانہ تو بنے ہزار پیمانے

ہے ادھر خمار آنکھوں میں ادھر انتظار آنکھوں میں
ابھی دور مے کشی ہے دور ابھی بن رہے ہیں میخانے

ہوا بھولے پن پہ جو بسمل وہ تو اپنا آپ ہے قاتل
یہ سمجھ کا پھیر ہے اے دل ستم و جفا وہ کیا جانے

نئی کروٹیں زمانے کی ہیں بڑی ہی انقلاباتی
کہیں بستیوں میں ویرانی کہیں بس رہے ہیں ویرانے

یہ ابھرتی مٹتی تحریریں یہ بگڑتی بنتی تصویریں
کسی حسن کی ہیں تنویریں کوئی دیکھے ہو تو پہچانے

تو ہے جان حسن یہ سن کے تو پسینہ چھوٹا ماتھے سے
مرا نام آرزوؔ سن لے تو وہ اور بھی برا مانے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse