کہیں بیٹھنے دے دِل اب مُجھے جُو حواس ٹک میں بجا کروں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہیں بیٹھنے دے دِل اب مُجھے جُو حواس ٹک میں بجا کروں
by نظیر اکبر آبادی

کہیں بیٹھنے دے دِل اب مُجھے جُو حواس ٹک میں بجا کروں
نہیں تاب مُجھ میں کے جب تلک تُو پھرے تُو میں بھی پھرا کروں

تُو ہزار مُجھ کو ستا پری تری چاہ مُجھ سے نہ چھوٹے گی
میرے دِل کی تُو ہے یہی خُوشی تُو جفا کرے میں وفا کروں

جوں ہی بوسہ میں نے طلب کیا تُو کہا تُجھے تُو نہیں ہے ڈر
مُجھے خوف ہے کے مبادا گر کوئی دیکھ لے تُو میں کیا کروں

مُجھے مدتوں سے ہے درد دِل جُو کہا کچھ اس کا علاج کر
تُو کہا کے اس کی دوا ہے یہ تُو کہا کرے میں سنا کروں

جُو نگہ سے چاہ کی دیکھیے تُو چڑھا کہ تیوری یہ کہتا ہے
تری اس نگہ کی سزا ہے یہ کے بس اب میں تُجھ سے چھپا کروں

کبھی اِس کہ کوچے میں جا ملے جُو بہ کام دِل گھڑی دو گھڑی
تُو مُجھے ہیں یاد وُہ مکر و فن پھر اِسی کہ دِل میں میں جا گروں

کوئی بولا تم نے نظیرؔ کو نہ جھڑک دیا تُو کہا میاں
دِل و جاں سے مُجھ پہ فدا ہے وُہ اسے کس طرح میں خفا کروں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse