کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
by الطاف حسین حالی

کہہ دو کوئی ساقی سے کہ ہم مرتے ہیں پیاسے
گر مے نہیں دے زہر ہی کا جام بلا سے

جو کچھ ہے سو ہے اس کے تغافل کی شکایت
قاصد سے ہے تکرار نہ جھگڑا ہے صبا سے

دلالہ نے امید دلائی تو ہے لیکن
دیتے نہیں کچھ دل کو تسلی یہ دلاسے

ہے وصل تو تقدیر کے ہاتھ اے شہ خوباں
یاں ہیں تو فقط تیری محبت کے ہیں پیاسے

پیاسے ترے سرگشتہ ہیں جو راہ طلب میں
ہونٹوں کو وہ کرتے نہیں تر آب بقا سے

در گزرے دوا سے تو بھروسے پہ دعا کے
در گزریں دعا سے بھی دعا ہے یہ خدا سے

اک درد ہو بس آٹھ پہر دل میں کہ جس کو
تخفیف دوا سے ہو نہ تسکین دعا سے

حالیؔ دل انساں میں ہے گم دولت کونین
شرمندہ ہوں کیوں غیر کے احسان و عطا سے

جب وقت پڑے دیجیے دستک در دل پر
جھکئے فقرا سے نہ جھمکیے امرا سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse