کہو دیر و حرم یا نام اپنا آستاں رکھ دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہو دیر و حرم یا نام اپنا آستاں رکھ دو
by کیفی چریاکوٹی

کہو دیر و حرم یا نام اپنا آستاں رکھ دو
سر تسلیم خم ہے تم جہاں چاہو وہاں رکھ دو

گھٹا کر قید آزادی بڑھا دو غم اسیری کا
قفس کو آشیاں میں یا قفس میں آشیاں رکھ دو

تسلی دینے والو ہم تہی دستان قسمت ہیں
سر دامن جو ممکن ہو تو دل کی دھجیاں رکھ دو

ضرورت جان کی دل کو میں بے پروائے ہستی ہوں
جہاں دل ہے وہیں اب میری جان ناتواں رکھ دو

خدا کہلاؤ یا کچھ اور سب کچھ مجھ کو کہنا ہے
ادھر آؤ مرے منہ میں تمہیں اپنی زباں رکھ دو

وفا کا راز اس مجمع میں کھولا جا نہیں سکتا
سوا محشر کے کوئی اور روز امتحاں رکھ دو

محبت اور تسلی اس پہ ہوش زندگی کیفیؔ
نہیں اٹھتا اگر کاندھے سے یہ بار گراں رکھ دو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse