کہو تو آج دل بے قرار کیسے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہو تو آج دل بے قرار کیسے ہو
by جمیلہ خدا بخش

کہو تو آج دل بے قرار کیسے ہو
شب الم کے ستائے نزار کیسے ہو

ہوس یہی ہے کہ پوچھے وہ آ کے ہم سے کبھی
ہماری دید کے امیدوار کیسے ہو

تڑپ رہے ہو لحد میں کہ چین و راحت ہے
کہو تو مجھ سے کہ اہل مزار کیسے ہو

نہ اس طرح کرو پامال دل کو عاشق کے
سمند ناز کو روکو سوار کیسے ہو

ہماری راہ نہ کھوٹی کرو خدا کے لیے
ہمیں ستاؤ نہ صحرا کے خار کیسے ہو

کنارا خواب کو ہے چشم تر سے عاشق کے
خیال جلوۂ دیدار یار کیسے ہو

جمیلہؔ میری زباں سے نہ کچھ نکل جائے
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں بار بار کیسے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse