کہو بلبل کو لے جاوے چمن سے آشیاں اپنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہو بلبل کو لے جاوے چمن سے آشیاں اپنا
by آفتاب شاہ عالم ثانی

کہو بلبل کو لے جاوے چمن سے آشیاں اپنا
پڑھے گر صد ہزار افسوں نہ ہوگا باغباں اپنا

چلی جب باغ سے بلبل لٹا کر خانماں اپنا
نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

نہ تو نے گل کیا اپنا نہ بلبل باغباں اپنا
چمن میں کس طرح سیتی بنایا خانماں اپنا

اٹھا کر لے چلی بلبل چمن سے آشیاں اپنا
کہا گل سے کہ لے یہ بے وفا ہم سے مکاں اپنا

ہوئی جب باغ سے رخصت کہا رو رو کے یا قسمت
لکھا تھا یوں کہ فصل گل میں چھوڑیں خانماں اپنا

ارے صیاد یوں چاہے تو جی اور جان سے حاضر
ولیکن طوق قمری کی طرح کر کے نشاں اپنا

مرا جلتا ہے جی اس بلبل بیکس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر یوں لٹایا یاں خانماں اپنا

الم کر اس طرح روئی کہ رسوا ہو گئی بلبل
ڈبایا ہائے آنکھوں نے تمامی خانماں اپنا

مگر دل سے بنا رکھنا علی گوہر سے پیارے کو
وہ شاہی گو کہ رکھتا ہے ولے ہے مہرباں اپنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse