کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
by میر اثر

کہوں کیا دل اڑانے کا ترا کچھ ڈھب نرالا تھا
وگرنہ ہر طرح سے اب تلک تو میں سنبھالا تھا

کہاں اب کھل کے وہ رونا کدھر وہ اشک کی شورش
کبھو کچھ پھوٹ بہتا ہے جگر پر وہ جو چھالا تھا

ہوا آوارۂ دشت و بیاباں دیکھتے اپنے
وہ طفل اشک جو الفت سے آنکھوں بیچ پالا تھا

ترا غم کھا گیا میرا کلیجہ دل سبھی یک بار
ہوا ہوگا کہاں سے سیر یہ تو اک نوالہ تھا

ابھی تو لگ نہ چلنا تھا اثرؔ اس گل بدن کے ساتھ
کوئی دن دیکھنا تھا زخم دل بے طرح آلا تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.