کہوں کیا اضطراب دل زباں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
by جلیل مانکپوری

کہوں کیا اضطراب دل زباں سے
رہے جاتے ہیں سب پہلو بیاں سے

انہیں چہکا رہا ہوں چاند کہہ کر
عوض لینا ہے مجھ کو آسماں سے

ہم ایسے ناتواں وہ ایسے نازک
اٹھائے کون پردہ درمیاں سے

شمیم گل نے بڑھ کر حال مارا
قدم باہر جو رکھا آشیاں سے

تڑپ میری ترقی کر رہی ہے
زمیں ٹکرا نہ جائے آسماں سے

خدا رکھے چمن کا پھول ہو تم
ہنسو کھیلو نسیم بوستاں سے

نگاہ گل سے بلبل یوں گری ہے
گرے جس طرح تنکا آشیاں سے

زمین شعر ہم کرتے ہیں آباد
چلے آتے ہیں مضموں آسماں سے

بڑا لنگر تھا شعر و شاعری کا
اٹھا کیوں کر جلیلؔ ناتواں سے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse