کہوں میں کیا کہ کیا درد نہاں ہے
Appearance
کہوں میں کیا کہ کیا درد نہاں ہے
تمہارے پوچھنے ہی سے عیاں ہے
شکایت کی بھی اب طاقت کہاں ہے
نگاہ حسرت آہ ناتواں ہے
نشان پائے غیر اس آستاں پر
نہیں ہے میرے مرقد کا نشاں ہے
اجل نے کی ہے کس دم مہربانی
کہ جب پہلو میں وہ نامہرباں ہے
تجھے بھی مل گیا ہے کوئی تجھ سا
اب آئینے سے وہ صحبت کہاں ہے
یہ کس گل رو کا عالم یاد آیا
دم سرد اک نسیم بوستاں ہے
ہوئی بیتابی بلبل مؤثر
کہ گھبرایا ہوا کچھ باغباں ہے
سحر ان کو ارادہ ہے سفر کا
قیامت آنے میں شب درمیاں ہے
کوئی یاں لاؤ اس عیسیٰ نفس کو
کہ مرتا شیفتہؔ نام اک جواں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |