کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
by مرزا شوقؔ لکھنوی

کہنے میں نہیں ہیں وہ ہمارے کئی دن سے
پھرتے ہیں انہیں غیر ابھارے کئی دن سے

جلوے نہیں دیکھے جو تمہارے کئی دن سے
اندھیرے ہیں نزدیک ہمارے کئی دن سے

بے صبح نکلتا نہیں وو رات کو گھر سے
خورشید کے انداز ہیں سارے کئی دن سے

ہم جان گئے آنکھ ملاؤ نہ ملاؤ
بگڑے ہوئے تیور ہیں تمہارے کئی دن سے

کس چاک گریباں کا کیا آپ نے ماتم
کپڑے بھی نہیں تم نے اتارے کئی دن سے

دیوانہ ہے سودائی ہے فرماتے ہیں اکثر
ان ناموں سے جاتے ہیں پکارے کئی دن سے

دل پھنس گیا ہے آپ کی زلفوں میں ہمارا
ہیں بندۂ بے دام تمہارے کئی دن سے

منہ گال پے رکھ دیتے ہیں سوتے میں چمٹ کر
کچھ کچھ تو حیا کم ہوئی بارے کئی دن سے

مہندی بھی ہے مسی بھی ہے لاکھا بھی ہے لب پر
کچھ رنگ ہیں بے رنگ تمہارے کئی دن سے

ڈر سے ترے کاکل کے نہیں چلتے ہیں رستہ
دم بند ہیں اس سانپ کے مارے کئی دن سے

آخر مری آہوں نے اثر اپنا دکھایا
گھبرائے ہوئے پھرتے ہو پیارے کئی دن سے

کس کشتۂ کاکل کا رکھا سوگ مری جاں
گیسو نہیں کیوں تم نے سنوارے کئی دن سے

پامال کرو گے کسی وارفتہ کو اپنے
اٹکھیلیاں ہیں چال میں پیارے کئی دن سے

اک شب مرے گھر آن کے مہمان رہے تھے
آئے نہیں اس شرم کے مارے کئی دن سے

پھر شوقؔ سے کیا اس بت عیار سے بگڑی
ہوتے نہیں باہم جو اشارے کئی دن سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse