کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم
by ریاض خیرآبادی

کہنے بھی کچھ نہ پائے تھے آہ رسا سے ہم
سننا پڑا کہ آج لڑیں گے ہوا سے ہم

ضد آپ کو اثر سے اثر کو دعا سے لاگ
فرمائیے تو ہاتھ اٹھا لیں دعا سے ہم

پیسیں کسے یہ کہتے ہیں فتنے دم خرام
اتنی بڑے حضور قیامت ذرا سے ہم

محشر میں پائی جام بکف حور زاہدو
اچھے رہے یہاں بھی تمہاری دعا سے ہم

سوتے میں کام آئی نہ کچھ چشم نیم باز
کھل کھیلے آج یار کے بند قبا سے ہم

ہم جانتے ہیں خوب اداؤں کی شوخیاں
ہم ہیں ادا شناس ڈریں کیا قضا سے ہم

اٹھ جائے بار شرم تو سو فتنے ہم اٹھائیں
کہتی ہے وہ نگاہ دبے ہیں حیا سے ہم

حوروں کے بدلے ہوں بت کافر ہمیں نصیب
تم کو اگر ستائیں تو پائیں خدا سے ہم

کرتے نہ ہم وفا تو نہ بڑھتے جفا و جور
شرمندہ وہ جفا سے تو اپنی دعا سے ہم

ممکن ہے جا کے عرصۂ محشر میں سر اٹھائیں
تیری گلی میں دب کے رہے نقش پا سے ہم

ان کے لئے مزے کی سزا ہے یہی ریاضؔ
محشر میں مانگ لیں گے بتوں کو خدا سے ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse