کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
by نظیر اکبر آبادی

کہنے اس شوخ سے دل کا جو میں احوال گیا
واں نہ تفصیل گئی پیش نہ اجمال گیا

دام کاکل سے گلا کیا یہ جو ہے طائر دل
آپ اپنے یہ پھنسانے کو پر و بال گیا

دل بے تاب کی کیا جانے ہوئی کیا صورت
پیچھے اس شوخ ستمگر کے جو فی الحال گیا

لے گیا ساتھ لگا وہ بت قاتل گھر تک
یا اسے مار کے رستے میں کہیں ڈال گیا

خیر وہ حال ہوا یا یہ ہوئی شکل نظیرؔ
کچھ تأسف نہ کرو جانے دو جنجال گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse