کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
Appearance
کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
اچھا ہوا جو دل کسی مشکل میں رہ گیا
کیا پوچھتے ہو ایسے مسافر کی سرگزشت
جس کو کہ دل بھی چھوڑ کے منزل میں رہ گیا
نکلا تھا بن سنور کے بہت چودھویں کا چاند
پھر بھی وہ تیرے رخ کے مقابل میں رہ گیا
قاتل نے تیغ میان میں کچھ سوچ کر رکھی
تھوڑا سا جب کہ دم تن بسمل میں رہ گیا
درہم ملا بھی منعم کج خلق سے اگر
اک داغ بن کے وہ کف سائل میں رہ گیا
اتنا بتا دے اس کے اٹھانے سے فائدہ
تصویر بن کے جو تری محفل میں رہ گیا
کیا جانے بحر عشق کی حالت وہ بد نصیب
دم توڑ کر جو دامن ساحل میں رہ گیا
فکر اس کی رنج اس کا امید اس کی کچھ نہ پوچھ
جو سر جھکا کے کوچۂ قاتل میں رہ گیا
تعبیر خواب زلف مسلسل تھی کیا یہی
عالمؔ جکڑ کے میں جو سلاسل میں رہ گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |