کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

کہنا نہ مانا کوچۂ قاتل میں رہ گیا
اچھا ہوا جو دل کسی مشکل میں رہ گیا

کیا پوچھتے ہو ایسے مسافر کی سرگزشت
جس کو کہ دل بھی چھوڑ کے منزل میں رہ گیا

نکلا تھا بن سنور کے بہت چودھویں کا چاند
پھر بھی وہ تیرے رخ کے مقابل میں رہ گیا

قاتل نے تیغ میان میں کچھ سوچ کر رکھی
تھوڑا سا جب کہ دم تن بسمل میں رہ گیا

درہم ملا بھی منعم کج خلق سے اگر
اک داغ بن کے وہ کف سائل میں رہ گیا

اتنا بتا دے اس کے اٹھانے سے فائدہ
تصویر بن کے جو تری محفل میں رہ گیا

کیا جانے بحر عشق کی حالت وہ بد نصیب
دم توڑ کر جو دامن ساحل میں رہ گیا

فکر اس کی رنج اس کا امید اس کی کچھ نہ پوچھ
جو سر جھکا کے کوچۂ قاتل میں رہ گیا

تعبیر خواب زلف مسلسل تھی کیا یہی
عالمؔ جکڑ کے میں جو سلاسل میں رہ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse