کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
by مرزا محمد رفیع سودا

کہتے ہیں لوگ یار کا ابرو پھڑک گیا
تیغا سا کچھ نظر میں ہماری سڑک گیا

میں کیا کروں ادائے غضب ناک کا بیاں
بجلی سا میرے سامنے آ کر کڑک گیا

نالے سے میرے گل تو ہوا چاک پیرہن
بلبل ترا جگر نہ یہ سن کر تڑک گیا

کوئی گیا نہ خوف سے قاتل کے سامنے
میں ہی تھا اس کے رو بہ رو جو بے دھڑک گیا

مشکل پڑے گا پھر تو بجھانا جہان کا
جو ٹک زیادہ عشق کا شعلہ بھڑک گیا

سوداؔ چرا چکا ہی تھا گلشن میں گل کو میں
قسمت کو اپنی کیا کہوں پتا کھڑک گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse