کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
by نظام رامپوری

کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
تم سے کس روز ربط تھا میرا

نامہ بر اس نے تو کہا سب کچھ
تو نے بھی حال کچھ کہا میرا

اب تو خواہاں وصال کا بھی نہیں
کچھ عجب ہے معاملہ میرا

اور کس کو سناتے ہو مجھ کو
اور کس کا یہ ذکر تھا میرا

یہ بھی کیا بات آئی اس دن کی
یہ بھی کہیے قصور تھا میرا

مجھ سے پھر پوچھنے سے کیا حاصل
گر سمجھتے ہو مدعا میرا

کچھ کسی بات کا خیال بھی ہے
غیر کے سامنے گلا میرا

دیکھ کر اس کا پھیرا لینا منہ
اور حسرت سے دیکھنا میرا

کچھ تو باعث ہے میرے آنے کا
کچھ تو تم سے ہے واسطا میرا

بے وفا کہتے ہیں سبھی تم کو
کہیے اس میں قصور کیا میرا

ایسی باتیں تو غیر کی ہوں گی
آپ نے نام لے لیا میرا

حال سن کے مرا نہ یہ تو کہہ
ایک ہی حال ہے ترا میرا

بے قراری سے شب کٹی ہوگی
ایسا کس دن خیال تھا میرا

کس نے بے تاب کر دیا مجھ کو
کون آرام لے گیا میرا

دم مرگ آ کے پوچھتے ہیں نظامؔ
اب تو بخشا کہا سنا میرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse