کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
by نسیم دہلوی

کہتے ہیں سن کے تذکرے مجھ غم رسیدہ کے
افسانے کون سنتا ہے حال شنیدہ کے

کیا اپنی مشت خاک کی ہم جستجو کریں
ملتے نہیں نشان غبار پریدہ کے

میں خاک بھی ہوا نہ گئی پر کشیدگی
غصے وہی رہے مرے دامن کشیدہ کے

جو تم میں بات ہے وہ کسی اور میں کہاں
جلوے کچھ اور ہی ہیں گل نو دمیدہ کے

سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے
شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے

کچھ انتہا نہیں ہے کہاں تک سنائیے
قصے دراز ہیں دل نا آرمیدہ کے

قطرے ملے جو تیرے پسینے کے گل بدن
خواہاں رہے نہ لوگ گلاب چکیدہ کے

آہوں کی دھوم ہے کہیں نالوں کے گلگلے
ساماں نئے ہیں روز ترے غم کشیدہ کے

آرام گاہ اشک ہے ویران اے جنوں
دامن ہیں تار تار قبائے دریدہ کے

او مست ناز کیف یہ تیرے سخن میں ہے
دھوکے کلام پر ہیں شراب چکیدہ کے

لو آشیان تن کی طرف میل تک نہیں
دیکھو مزاج طائر رنگ پریدہ کے

دیواں میں وصف ہے عرق جسم یار کا
مضموں کہاں کہاں ہیں گلاب چکیدہ کے

مژگاں سے بچ نسیمؔ کہ ابرو کے پاس ہیں
یہ تیر بے خطا ہیں کمان کشیدہ کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse