کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
by داغ دہلوی

کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو

مطلب کی کہہ رہے ہیں وہ دانا ہمیں تو ہیں
مطلب کی پوچھتے ہو وہ ناداں تمہیں تو ہو

آتا ہے بعد ظلم تمہیں کو تو رحم بھی
اپنے کیے سے دل میں پشیماں تمہیں تو ہو

پچھتاؤ گے بہت مرے دل کو اجاڑ کر
اس گھر میں اور کون ہے مہماں تمہیں تو ہو

اک روز رنگ لائیں گی یہ مہربانیاں
ہم جانتے تھے جان کے خواہاں تمہیں تو ہو

دل دار و دل فریب دل آزار و دل ستاں
لاکھوں میں ہم کہیں گے کہ ہاں ہاں تمہیں تو ہو

کرتے ہو داغؔ دور سے بت خانے کو سلام
اپنی طرح کے ایک مسلماں تمہیں تو ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse