کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا
by نظیر اکبر آبادی

کہا تھا ہم نے تجھے تو اے دل کہ چاہ کی مے کو تو نہ پینا
جو اس کو پی کر تو ایسا بہکا کہ ہم کو مشکل ہوا ہے جینا

جو آنکھیں چنچل کی دیکھیں ہم نے تو نوک مژگاں نے دل کو چھیدا
نگہ نے ہوش و خرد کو لوٹا ادا نے صبر و قرار چھینا

کہا جو ہم نے کہ آن لگیے ہمارے سینے سے اس دم اے جاں
تو سن کے اس نے حیا کی ایسی کہ آیا منہ پر وہیں پسینہ

کیا ہے غصہ میں ہاتھ لا کر مرا گریباں جو ٹکڑے اس نے
پھٹا ہی رہنا ہے اب تو بہتر نہیں مناسب کچھ اس کو سینا

کہا تھا آؤں گا دو ہی دن میں ولے نہ آیا وہ شوخ اب تک
گنا جو ہم نے نظیرؔ دل میں تو اس سخن کو ہوا مہینہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse