کہاں ہے تو کہاں ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہاں ہے تو کہاں ہے اور میں ہوں
by سید یوسف علی خاں ناظم

کہاں ہے تو کہاں ہے اور میں ہوں
انا الحق کا بیاں ہے اور میں ہوں

لب جاں بخش جاناں کا ہوں کشتہ
حیات جاوداں ہے اور میں ہوں

وصال دائمی کا ہے تصور
بہار بے خزاں ہے اور میں ہوں

نہیں ہر اک کو اس میخانے میں بار
بس اک پیر مغاں ہے اور میں ہوں

مزا دیتا ہے تنہائی میں رونا
کہ اک دریا رواں ہے اور میں ہوں

اٹھا دو دن کو اور شب کو بدستور
یہ سنگ آستاں ہے اور میں ہوں

تحمل کی نہیں اب تاب زنہار
نبرد آسماں ہے اور میں ہوں

گل گلچیں کہاں فصل خزاں میں
پرانا آشیاں ہے اور میں ہوں

شب ہجراں میں ہو کون اور دم ساز
فقط اک قصہ خواں ہے اور میں ہوں

ولایت کا سفر مشکل ہے ناظمؔ
یہی ہندوستاں ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse