کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
by میر محمدی بیدار

کہاں ہم رہے پھر کہاں دل رہے گا
اسی طرح گر تو مقابل رہے گا

کھلی جب گرہ بند ہستی کی تجھ سے
تو عقدہ کوئی پھر نہ مشکل رہے گا

دل خلق میں تخم احساں کے بو لے
یہی کشت دنیا کا حاصل رہے گا

حجاب خودی اٹھ گیا جب کہ دل سے
تو پردہ کوئی پھر نہ حائل رہے گا

نہ پہنچے گا مقصد کو کم ہمتی سے
جو سالک طلب گار منزل رہے گا

نہ ہوگا تو آگاہ عرفان حق سے
گر اپنی حقیقت سے غافل رہے گا

خفا مت ہو بیدارؔ اندیشہ کیا ہے
ملا گر نہ وہ آج کل مل رہے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse