کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق
by جلیل مانکپوری

کہاں ہم اور کہاں اب شراب خانۂ عشق
نہ وہ دماغ نہ وہ دل نہ وہ زمانۂ عشق

ہوا ہے شہر خموشاں میں جب گزر میرا
سنا کیا ہوں لب گور سے فسانۂ عشق

خیال رخ پہ ہے موقوف دل کی آبادی
کبھی نہ گل ہو الٰہی چراغ خانۂ عشق

بھرے ہوئے ہیں حسینان سیم تن دل میں
خدا کرے کبھی خالی نہ ہو خزانۂ عشق

گئی دماغ میں جس کے کیا اسیر اسے
عجب کمند ہے بوئے شراب خانۂ عشق

کہیں ہے داغ کا مضموں کہیں ہے سوز کا ذکر
سنو نہ تم کہ بہت گرم ہے فسانۂ عشق

غلط ہے صاحب دولت کو گر غنی کہیے
غنی وہ ہے جسے اللہ دے خزانۂ عشق

جو بحر غم میں گرا ہاتھ دھو کے جینے سے
اسی کے ہاتھ بھی آیا در یگانۂ عشق

تمام عمر اسی صحرا کی خاک چھانی ہے
جو تم سنو تو سناؤں کوئی فسانۂ عشق

بنے ہیں جب سے وہ یوسف ہر ایک گاہک ہے
کھلا ہوا ہے یہاں بھی در خزانۂ عشق

کسی پہ دل کا تھا آنا کہ بے خودی چھائی
سمند ہوش کو آفت ہے تازیانۂ عشق

جب ان کے دل میں یہ آتی ہے کچھ سنیں نالے
تو مجھ سے کہتے ہیں چھیڑو کوئی ترانۂ عشق

چمک کے داغ یہ کہتا ہے دل کی آہوں سے
ہوا سے بجھ نہیں سکتا چراغ خانۂ عشق

یہ جانیے کہ لگی ہاتھ دولت کونین
ملے جو خرمن ہستی سے ایک دانۂ عشق

یہاں ایازؔ ہے آقا غلام ہے محمودؔ
جلیلؔ کیا میں کہوں تم سے کارخانۂ عشق

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse