کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
Appearance
کہاں ممکن ہے پوشیدہ غم دل کا اثر ہونا
لبوں کا خشک ہو جانا بھی ہے آنکھوں کا تر ہونا
غضب مل کر جدا مجھ سے ترا او فتنہ گر ہونا
ستم نالوں کا پر تاثیر ہو کر بے اثر ہونا
جگر میں درد لب پر نالۂ وحشت اثر ہونا
عیاں کرتا ہے اک رشک پری کا دل میں گھر ہونا
غضب نالہ کشی اک صاحب عصمت کے کوچہ میں
ستم اے دل کسی پردہ نشیں کا پردہ در ہونا
وہ ان کا چپکے چپکے مسکرانا خون رونے پر
وہ میرا دل ہی دل میں واصف رنگ اثر ہونا
جو تنہا پاس منزل دل کو شایاں ہے محبت میں
تو آنکھوں کو ہے لازم دیدۂ حسرت نگر ہونا
قیامت تھا ستم تھا قہر تھا خلوت میں او ظالم
وہ شرما کر ترا میری بغل میں جلوہ گر ہونا
ستم کی جور کی بیداد کی کافی شہادت ہے
جدائی میں مرا بیتاب بے خود بے خبر ہونا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |