کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
by ثاقب لکھنوی

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے

لہو تھا تمنا کا آنسو نہیں تھے
بہائے نہ جاتے تو ہرگز نہ بہتے

وفا بھی نہ ہوتا تو اچھا تھا وعدہ
گھڑی دو گھڑی تو کبھی شاد رہتے

ہجوم تمنا سے گھٹتے تھے دل میں
جو میں روکتا بھی تو نالے نہ رہتے

میں جاگوں گا کب تک وہ سوئیں گے تا کے
کبھی چیخ اٹھوں گا غم سہتے سہتے

بتاتے ہیں آنسو کہ اب دل نہیں ہے
جو پانی نہ ہوتا تو دریا نہ بہتے

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا مجھ کو چپ رہتے رہتے

مری ناؤ اس غم کے دریا میں ثاقبؔ
کنارے پہ آ ہی لگی بہتے بہتے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse