کھینچ کر یوں لے چلی وحشت بیاباں کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھینچ کر یوں لے چلی وحشت بیاباں کی طرف
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

کھینچ کر یوں لے چلی وحشت بیاباں کی طرف
لائیں جیسے طفل بد خو کو دبستاں کی طرف

فیض وحشت کا ادائے شکر جب واجب ہوا
سر جھکایا ہم نے محراب گریباں کی طرف

حاصل جوش جنوں ہے ماتم ہوش و خرد
خاک اڑاتے جاتے ہیں وحشی بیاباں کی طرف

عقل کے تیغ جنون تیز سے کوچے کٹے
کون آئے جادۂ چاک گریباں کی طرف

کر چکا جوش جنوں جنس خرد پر ہاتھ صاف
لوٹ اب آتی ہے بازار گریباں کی طرف

عشق کے مکتب میں جب آیا پئے درس جنوں
پہلے ہی انگلی اٹھی نون گریباں کی طرف

مائل زیور ہوا جب وہ حسین جامہ زیب
چاند آیا چرخ سے طوق گریباں کی طرف

ہوش میں آتے ہیں دیوانے گئی فصل بہار
دشت وحشت چھپ رہے پشت گریباں کی طرف

ناخن غم کا نشاں دل پر ہے مثل ماہ نو
انگلیاں اٹھتی ہیں اس زخم نمایاں کی طرف

جب کسی عاشق نے کچھ حال پریشانی کہا
ہنس دئے منہ پھیر کر زلف پریشاں کی طرف

ضعف میں جی کھول کر رونے کی حسرت ہے مجھے
دیکھتا ہے یاس سے ہر اشک داماں کی طرف

شمع کے شعلے ستم کرتے ہیں مثل برق طور
دیکھتا ہوں جب نظرؔ بزم حسیناں کی طرف

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse