کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا
by انوری جہاں بیگم حجاب

کھینچ کر تلوار جب ترک ستم گر رہ گیا
ہائے رے شوق شہادت میں تڑپ کر رہ گیا

ملتے ملتے رہ گئی آنکھ اس کی چشم مست سے
ہوتے ہوتے لب بہ لب ساغر سے ساغر رہ گیا

آپ ہی سے بے خبر کوئی رہا وعدہ کی شب
کیا خبر کس کی بغل میں کب وہ دلبر رہ گیا

لے لیا میں نے کنارہ شوق میں یوں دفعتاً
شوخیاں بھولا وہ خلوت میں جھجک کر رہ گیا

تجھ سے قاتل کہہ دیا تھا دل کا یہ ارمان ہے
دیکھ لے آخر مرے سینہ میں خنجر رہ گیا

مدتوں سے سینۂ بسمل ہے جس قاتل کا گھر
کیا ہوا دل میں اگر آج اس کا خنجر رہ گیا

چل دیئے ہوش و خرد تو میکشوں کے چل دیئے
رہ گیا ہاں میکدے میں دور ساغر رہ گیا

سخت خجلت ہوگی دیکھ اے شوق عریانی مجھے
آج اگر اک تار بھی باقی بدن پر رہ گیا

کون کہتا ہے مکان غیر پر تم کیوں رہ گئے
عرض تو یہ ہے کہ رستے میں مرا گھر رہ گیا

پارسائی شیخ صاحب کی دھری رہ جائے گی
دست ساقی میں اگر دم بھر بھی ساغر رہ گیا

جس کے آنے کی خوشی میں کل سے وارفتہ تھے تم
آج بھی آتے ہی آتے وہ ستم گر رہ گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse