کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب و تاب عارض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب و تاب عارض
by احمد حسین مائل

کھڑے ہیں موسیٰ اٹھاؤ پردا دکھاؤ تم آب و تاب عارض
حجاب کیوں ہے کہ خود تجلی بنی ہوئی ہے حجاب عارض

نہ رک سکے گی ضیائے عارض جو سد رہ ہو نقاب عارض
وہ ہوگی بے پردہ رکھ کے پردا غضب کی چنچل ہے تاب عارض

چھپا نہ منہ دونوں ہاتھ سے یوں تڑپتی ہے برق تاب عارض
لگا نہ دے آگ انگلیوں میں یہ گرمیٔ اضطراب عارض

جو ان کو لپٹا کے گال چوما حیا سے آنے لگا پسینہ
ہوئی ہے بوسوں کی گرم بھٹی کھنچے نہ کیوں کر شراب عارض

پری جو دیکھے کہے تڑپ کر جو حور دیکھے کہے پھڑک کر
تمہارا گیسو جواب گیسو تمہارا عارض جواب عارض

حضور گھونگھٹ اٹھا کے آئیں بڑی چمک کس میں ہے دکھائیں
ادھر رہے آفتاب محشر ادھر رہے آفتاب عارض

چھپانا کیا ایک کا تھا منظور آج تک ہیں جو چار مشہور
زبور توریت مصحف انجیل پانچویں ہے کتاب عارض

نہ کیوں ہو دعویٰ برابری کا وہاں ملا تل یہاں سویدا
یہ نقطۂ انتخاب دل ہے وہ نقطۂ انتخاب عارض

پڑا ہوں غش میں مجھے سنگھا دو پسینہ چہرے کا زلف کی بو
نہیں ہے کم لخلخے سے مجھ کو یہ مشک گیسو گلاب عارض

جو شعلہ رو منہ چھپا کے نکلا دھواں سر راہ کچھ کچھ اٹھا
لگی وہ آتش بنے ہے جل کر نقاب عارض کباب عارض

نہ جھیپو صبح وصال دیکھو تم آنکھ سے آنکھ تو ملاؤ
لیے ہیں گن گن کے میں نے بوسے زبان پر ہے حساب عارض

کرو نہ غصے سے لال چہرا بھوؤں میں ڈالو نہ بل خدارا
نہیں مجال‌ جلال ابرو نہیں ہے تاب عتاب عارض

جو گال پر گال ہم رکھیں گے شب وصال ان کے ہاتھ اٹھیں گے
طمانچے ماریں گے پیار سے وہ بجیں گے چنگ و رباب عارض

کمر کو گردن کو دست و لب کو وصال میں لطف دے رہا ہے
شباب زانو شباب بازو شباب سینہ شباب عارض

جناب مائلؔ یہ کودک دل بتوں کی الفت میں ہوگا کامل
پڑھاؤ قرآں کے بدلے اس کو بیاض گردن کتاب عارض

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse