Jump to content

کھٹک نے دل کی دیا زخم بے نشاں کا پتا

From Wikisource
کھٹک نے دل کی دیا زخم بے نشاں کا پتا
by بیتاب عظیم آبادی
331041کھٹک نے دل کی دیا زخم بے نشاں کا پتابیتاب عظیم آبادی

کھٹک نے دل کی دیا زخم بے نشاں کا پتا
نہ اس دہن میں فغاں تھی نہ تھا زباں کا پتا

سر نیاز جھکانے کی خو تو پیدا کر
جبین شوق لگا لے گی آستاں کا پتا

ستم دبا نہ سکا آپ کے شہیدوں کو
جفا مٹا نہ سکی خون بے کساں کا پتا

رگ بریدہ پکارے گی نام قاتل کا
کفن بتائے گا اس تیغ خوں چکاں کا پتا

اسی قدر تو ہے سرمایۂ تجسس عقل
کہ کچھ زمیں کی خبر ہے کچھ آسماں کا پتا

دل تپاں تھا کہیں چشم خونفشاں تھی کہیں
قدم قدم پہ ملا کوچۂ بتاں کا پتا

اسیر دام محبت سے پوچھئے بیتابؔ
کمند طرۂ مشکین دلستاں کا پتا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.