کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں
by ریاض خیرآبادی

کھٹکتے ہیں نگاہ باغباں میں
جو ہیں دو چار تنکے آشیاں میں

ہر اک سختی میں عالم نزع کا تھا
ہماری عمر گزری امتحاں میں

چھڑا لے سجدہ کرنے میں نہ کوئی
لگے ہیں لال سنگ آستاں میں

شرارے ہیں مرے نالوں کے قائم
کہ تارے جڑ دیے ہیں آسماں میں

قریب اب فصل گل شاید ہے صیاد
مزا آنے لگا میری فغاں میں

ترس آتا نہیں مجھ پر کسی کو
میں فریاد جرس ہوں کارواں میں

اثر مے کا ہے یا توبہ کا ناصح
کہ تلخی سی ہے کچھ اب تک زباں میں

تڑپنے والوں میں بھی تفرقہ ہے
قفس میں ہم ہیں بجلی آشیاں میں

کسی سے چھوٹ کر عالم ہے کچھ اور
پڑا ہے تفرقہ سا جسم و جاں میں

ریاضؔ استاد نے رتبہ یہ بخشا
ہماری دھوم ہے ہندوستاں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse