کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
by میر محمدی بیدار

کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ

پارۂ بےکار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی
راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ

صاف کر دل تاکہ ہو آئینۂ رخسار یار
مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ

ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو
آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ

دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام
تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ

کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے
گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ

کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر
جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ

کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گل زار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ

مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدارؔ تو
گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.