کھوتا ہی نہیں ہے ہوس مطعم و ملبس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھوتا ہی نہیں ہے ہوس مطعم و ملبس
by تاباں عبد الحی

کھوتا ہی نہیں ہے ہوس مطعم و ملبس
یہ نفس ہوس ناک و بد آموز و مہوس

بے شبہ تری ذات خداوند خلائق
اعلیٰ ہے تعالی ہے معلیٰ ہے مقدس

وہ کام تو کر جس سے تری گور ہو گل زار
کیا خانئہ دیوار کو کرتا ہے مقرنس

مدفن کے تئیں آگے ہی منعم نہ بنا رکھ
کیا جانیے واں دفن ہو یا کھائے گا کرگس

ہے وصل ترا جنت و دوزخ ہی جدا ہے
جانے ہے کب اس باب کے تئیں ہر کس و ناکس

تصویر ترے پنجۂ سیمیں کی طلا سے
دیوان میں ہے میرے لکھی جائے مخمس

کہنے کو مرے دل کے سن اے گلشن خوبی
گر ہے تو ترے کو ہے یہ فردوس یہ مردس

سن سن کے ترا شور وہ بیزار ہوا اور
نالے کا اثر تیرے دلا دیکھ لیا بس

اس جبہ و عمامہ سے رندوں میں نہ آؤ
رسوا نہ کرو شیخ جی یہ شکل مقدس

مانند کماں خم نہ کروں قد کو طمع سے
گردش میں رکھے گو مجھے یہ چرخ مقدس

ہر رات ہے عاشق کو ترے روز قیامت
ہر روز جدائی میں اسے ہو ہے حندس

تاباںؔ یہ غزل اہل شعوروں کے لیے ہے
احمق نہ کوئی سمجھے تو جانے مرا دھندس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse