کھوئے ہوئے زمانے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھوئے ہوئے زمانے
by احمق پھپھوندوی

کیوں یاد آ رہے ہیں بھولے ہوئے فسانے
گزری ہوئی بہاریں کھوئے ہوئے زمانے
یا ایک برگ گل کو آنکھیں ترس رہی ہیں
یا اپنے دامنوں میں پھولوں کے تھے خزانے
یا آج خاک و صرصر ہیں ان کی وجہ زینت
یا تھے یہی گلستاں کل تک نگار خانے
یا آج خار و خس بھی ہم کو نہیں میسر
یا تھے کبھی گلوں کے جھرمٹ میں آشیانے
اب تک وہی صدائیں کانوں میں آ رہی ہیں
وہ چہچہے وہ نغمے وہ راگ وہ ترانے
ہے یاد ہم صفیرو تم کو وہ عہد اپنا
بجتے تھے جب خوشی کے ہر وقت شادیانے
جب تھیں مسرتوں کی لہریں ہر ایک دل میں
ہر وقت ڈھونڈھتے تھے تفریح کے بہانے
حسن و شباب کے وہ پر کیف عہد زریں
وہ عشق و عاشقی کے دلچسپ کارخانے
وہ جشن عیش و راحت وہ ساز لطف و عشرت
آنکھوں میں پھر رہے ہیں اب تک وہی زمانے
ناداں سمجھ کے ہم کو صیاد نے چمن میں
دام ہوس بچھا کر ڈالے وہ چند دانے
جن کے لئے ہم اب تک پچھتا رہے ہیں ہمدم
کنج قفس کے اندر کھا کھا کے تازیانے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse