کھلے گُل سبزہ نزہت بار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھلے گُل سبزہ نزہت بار ہے کیا کیا بہاریں ہیں
by نظیر اکبر آبادی

کھلے گُل سبزہ نزہت بار ہے کیا کیا بہاریں ہیں
صبا ہے رنگ و بو ہے یار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

ہجوم ابر ہے چمکے ہے برق اُور مینہ برستا ہے
نشہ ہے تازگی ہے یار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

صدائے بلبلاں ہے آب جُو ہے صحن گُلشن ہے
سمن ہے سرو ہے گلنار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

صنم کہ لب میں پان ہاتھوں میں مہندی پیر ہیں رنگیں
کناری ہے دھنک ہے ہار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

نظیرؔ اب عیش کی پیتا ہے مے ہر دم یہ کہہ کہہ کر
چمن ہے گُل ہے گُل رخسار ہے کیا کیا بہاریں ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse