کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے
by داغ دہلوی

کھلتا نہیں ہے راز ہمارے بیان سے
لیتے ہیں دل کا کام ہم اپنی زبان سے

کیا لذت وصال ادا ہو بیان سے
سب حرف چپکے جاتے ہیں میری زبان سے

مشہور راز عشق ہے کس کے بیان سے
میری زبان سے کہ تمہاری زبان سے

فتنہ بنا زمین پہ ہر ذرہ خاک کا
نکلے ہیں بہر سیر وہ جس دم مکان سے

اس دن سے مجھ کو نیند نہ آئی تمام عمر
اک شب ملی تھی آنکھ ترے پاسبان سے

یہ خاک میں ملائے تو وہ ہو ستم شریک
مجھ کو زمیں سے لاگ انہیں آسمان سے

لینا سنبھالنا کہ مرے ہوش اڑ چلے
آتا ہے کوئی مست قیامت کی شان سے

مجھ سے نظر ملا کے تم ابرو میں بل نہ دو
سیدھا چلے گا تیر نہ ٹیڑھی کمان سے

بازار عشق میں ہیں بہت دل جگہ جگہ
دیکھیں وہ مول لیتے ہیں کس کی دکان سے

شوریدہ سر وہ ہوں کہ اسے سر سے توڑ دوں
گر سنگ حادثہ بھی گرے آسمان سے

ارزاں کرے فروخت اگر مے فروش عشق
لینے لگیں فرشتے بھی اس کی دکان سے

گزری ہے آزمائش مہر و وفا میں عمر
فرصت مجھے ملی نہ کبھی امتحان سے

دل بھی بچا جگر بھی بچا خیر ہو گئی
تیر نگاہ پار ہوا درمیان سے

میں تم کو ناگوار ہوں دل مجھ کو ناگوار
تم مجھ سے تنگ اور ہوں میں تنگ جان سے

ہاں ہاں ترا رقیب سے بے شک ہے ربط ضبط
رتبہ یقین کا ہے زیادہ گمان سے

مہر و وفا کا نام ہے اب بات بات پر
یہ سن لیا ہے آپ نے کس کی زبان سے

کیسا کھلا ہے پھول جب آیا بہار پر
پوچھے تو کوئی لطف جوانی جوان سے

دانستہ آتے جاتوں سے لڑتا ہے رات دن
پھر ہو پڑی تھی آج ترے پاسبان سے

اس خوبرو کو بزم حسیناں میں دیکھیے
کرتا ہے آن بان بڑی آن تان سے

اے داغؔ اس کی خیر مناتا ہے آدمی
کوئی عزیز بڑھ کے نہیں اپنی جان سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse