کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
by شاد عظیم آبادی

کچھ کہے جاتا تھا غرق اپنے ہی افسانے میں تھا
مرتے مرتے ہوش باقی تیرے دیوانے میں تھا

ہائے وہ خود رفتگی الجھے ہوئے سب سر کے بال
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا

جس طرف جائے نظر اپنا ہی جلوہ تھا عیاں
جسم میں ہم تھے کہ وحشی آئینہ خانے میں تھا

بوریا تھا کچھ شبینہ مے تھی یا ٹوٹے سبو
اور کیا اس کے سوا مستوں کے ویرانے میں تھا

ہنستے ہنستے رو دیا کرتے تھے سب بے اختیار
اک نئی ترکیب کا درد اپنے افسانے میں تھا

سن چکے جب حال میرا لے کے انگڑائی کہا
کس غضب کا درد ظالم تیرے افسانے میں تھا

دون کی لیتا تو ہے زاہد مگر میں کیا کہوں
متقی ساقی سے بڑھ کر کون مے خانے میں تھا

پاس تھا زنجیر تک کا طوق پر کیا منحصر
وہ کسی میں اب کہاں جو تیرے دیوانے میں تھا

دیر تک میں ٹکٹکی باندھے ہوئے دیکھا کیا
چہرۂ ساقی نمایاں صاف پیمانے میں تھا

ہائے پروانے کا وہ جلنا وہ رونا شمع کا
میں نے روکا ورنہ کیا آنسو نکل آنے میں تھا

خود غرض دنیا کی حالت قابل عبرت تھی شادؔ
لطف ملنے کا نہ اپنے میں نہ بیگانے میں تھا

شادؔ کچھ پوچھو نہ مجھ سے میرے دل کے داغ کو
ٹمٹماتا سا چراغ اک اپنے ویرانے میں تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse