کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
by آسی غازی پوری

کچھ کہوں کہنا جو میرا کیجیے
چاہنے والے کو چاہا کیجیے

حوصلہ تیغ جفا کا رہ نہ جائے
آئیے خون تمنا کیجیے

فتنۂ روز قیامت ہے وہ چال
آج وہ آتے ہیں دیکھا کیجیے

کس کو دیکھا ان کی صورت دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ سجدا کیجیے

فتنے سب برپا کئے ہیں حسن نے
میری الفت کو نہ رسوا کیجیے

حور جنت ان سے کچھ بڑھ کر سہی
ایک دل کیا کیا تمنا کیجیے

کر دیا حیرت نے مجھ کو آئنہ
بے تکلف منہ دکھایا کیجیے

جوش میں آ جائے رحمت کی طرح
ایک اک قطرہ کو دریا کیجیے

نام اگر درکار ہے مثل نگیں
ایک گھر میں جم کے بیٹھا کیجیے

مل چکے اب ملنے والے خاک کے
قبر پر جا جا کے رویا کیجیے

کون تھا کل باعث بے پردگی
آپ مجھ سے آج پردا کیجیے

کل کی باتوں میں تو کچھ نرمی سی ہے
آج پھر قاصد روانا کیجیے

راہ تکتے تکتے آسیؔ چل بسا
کیوں کسی سے آپ وعدا کیجیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse