کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم
by عیش دہلوی

کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم
فانوس میں وہ جلتی ہے یاں پیرہن میں ہم

ہیں تفتہ جاں مفارقت گل بدن میں ہم
ایسا نہ ہو کہ آگ لگا دیں چمن میں ہم

گم ہوں گے بوئے زلف شکن در شکن میں ہم
قبضہ کریں گے چین کو لے کر ختن میں ہم

گر یہ ہی چھیڑ دست جنوں کی رہی تو بس
مر کر بھی سینہ چاک کریں گے کفن میں ہم

محو خیال زلف بتاں عمر بھر رہے
مشہور کیوں نہ ہوں کہو دیوانہ پن میں ہم

ہوں گے عزیز خلق کی نظروں میں دیکھنا
گر کر بھی اپنے یار کے چاہ ذقن میں ہم

چھکے ہی چھوٹ جائیں گے غیروں کے دیکھنا
آ نکلے ہاں کبھی جو تری انجمن میں ہم

اے عندلیب دعوی بیہودہ پر کہیں
ایک آدھ گل کا منہ نہ مسل دیں چمن میں ہم

عاشق ہوئے ہیں پردہ نشیں پر بس اس لیے
رکھتے ہیں سوز عشق نہاں جان و تن میں ہم

ظالم کی سچ مثل ہے کہ رسی دراز ہے
مصداق اس کا پاتے ہیں چرخ کہن میں ہم

عنقا کا عیشؔ نام تو ہے گو نشاں نہیں
یاں وہ بھی کھو چکے ہیں تلاش دہن میں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse